دانش ہو توعلم انسان کو قطب کی منزل تک پہنچا دیتا ہے لیکن علم کی ناقدری کا عالم اور اسکا تمسخر اڑانے والوں کا درجہ دیکھنا ہوتو اس قوم کا نقشہ دیکھ لینا ہی زیادہ مناسب ہوگا جس نے علم و دانش کے مراکز کو دجالی آنکھ سے دیکھنے کاشعار بنا رکھا ہے۔ ہم پاکستانی۔۔۔
ہم میں سے اکثریت ایسی ہوچکی ہے جس نے وٹس ایپ اور فیس بک کو علم کا منبع سمجھ لیا ہے، نہ صرف یہ بلکہ اس منبع کو علمی تمسخر اور انٹرٹینمنٹ کے لئے معمول کا حوالہ بنالیا ہے۔ صوفی سکالرمعروف اینکر پرسن سید بلا ل قطب کے ساتھ برنچ کے دوران اندازہ ہوا کہ ہم پاکستانی علم و دانش کے کس قدر بحران کا شکار ہیں اور اس بحران پر ٹھٹھے لگانا ہمارا قومی شعار بن چکا ہے۔ وہ برطانیہ و عراق کا دورہ کرکے آئے تھے اور لوکل دانشوروں کے ساتھ اپنا فکری و قلبی غم دور کررہے تھے، ان کا جذبہ سچائی اگل رہا تھا۔ایسا لگ رہاتھا ان کے اندر کوئی مسیحا سسکیاں لے رہاہے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ نہ جانے ہم کیسے جی رہے ہیں؟ ہمارے لئے تولاعلمی نعمت بن گئی ہے کیونکہ ۔۔۔ جو علم وگیان یہاں خوفناک عذاب کی صورت اختیار کرگیا ہے،لوگ پڑھ لکھ کر عقلی طور پر بانجھ ہورہے ہیں۔
آج لمز میں پڑھنے والا بھی طالبان بن گیا ہے۔ وہ اپنے علمی نظریات میں اسقدر متشدد ہوچکا ہے کہ کہتا ہے جو میں کہہ رہا ہوں اسکو تسلیم کرو۔۔۔ حالانکہ مذہب اور شریعت جو اصول وضع کردیتی ہے، وہ ایک ایسے بابو کی غیر منطقی اور گھٹی ہوئی دانش سے نہیں بدلا جاسکتا ۔ہمارے سیکولر یورپ کے انصاف پرور اور مہذب ہونے کی مثال دیتے اور اپنے مدارس کے نہایت تعلیم یافتہ لوگوں کو جاہل اور طالبان کہتے ہوئے کوئی گنجائش نہیں رکھتے ۔۔۔میں نے دیکھا ہے مدرسے میں سترہ سال منطق،فلسفہ،فقہ ایسے علوم پڑھنے والے کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔یہ سکہ بند سکالرز مدرسے کے طالب علم سے بات کرکے دیکھیں کہ کتنے حوصلے، تدبر اور دلائل سے بات کرتا ہے ۔۔۔۔۔چونکہ اسکی آوازہمارے سوکالڈ سیکولرز کو اچھی نہیں لگتی،وہ اسکو دبانے میں لگے رہتے ہیں اور عام مولویوں کی باتوں کو ہی دین و شریعت سمجھ کر تمسخر اڑاتے ہیں۔وہ کہتے ہیں پاکستان کو بدلواور یورپ کا حقوق نسواں نظام نافذ کرو۔ ارے یورپ نے تو اپنے جرائم اور گناہوں کو قانون کا جامہ پہنا کر تحفظ دیرکھا ہے، ان کا زنا لیگل،بغیر شادی رہنا یا بچے پیدا کرنا قانونی فریم میں ہے،اسیطرح شراب اور ہر وہ مخرب اخلاق عمل جو انسانیت کو اخلاقی زیور سے آراستہ کرتا اور روحوں کو پاکیزہ کرتا ہے ،یورپ نے اسکی دھجیاں اڑادیں اور اسکا حل یہ نکالا کہ اسکو لیگل کرلیا۔کیا یہ نظام کوئی نظام ہے ۔یہ تو عیش و عشرت کا رواج ہے جو مادر پدر اور ذمہ داریوں سے عاری اپنے لئے لازمی سمجھتے ہیں ۔ان جیسے نظاموں کا ہماری معاشرت پر اطلاق کیا جواز رکھتا ہے؟ کوئی جواز نہیں اسکا۔ہماری معیشت اور معاشرت یورپ سے جدا ہے تو ہمارے اپنے قوانین زیادہ بہتر ہوں گے جو ہمیں اپنی اقدار کے ساتھ جینے کی آزادی دیں گے،ہمارا علم و دانش کا مرکز اس وجہ سے ہی تباہ کیا گیا کہ یہ قوم سوچنا سمجھنا چھوڑ دے، انٹلکچول لیول ڈاؤن ہوجائے۔
انڈیا اس پر بہت خوش ہے کہ اس نے ایچ ای سی کو برباد کرادیا۔اس ادارے کو جس نے سکالر شپ دیکر ملک میں علم و دانش کا راستہ ہموار کیا تھا ۔۔۔۔۔پاکستان میں پی ایچ ڈی کرنے والوں کی افراط بڑی نعمت ثابت ہوتی لیکن کسی نے نہیں دیکھا کہ کارپوریٹ ورلڈ نے پاکستان کو کیسے بانجھ کردیا ہے۔ملک دماغوں سے چلتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں دماغ کہاں ،یہ تو وٹس ایپ اور فیس بک،وائی فائی ،ایم ایم ایس وغیرہ کی محتاج بنادی گئی ہے۔دانش کا طلب گار کون ہوگا؟ ۔۔۔۔یہ سوچ کر دل بہت کڑھتا ہے،سلگتاہے،جلتاہے۔۔۔کوئی ہے جو قوم کو بتائے کہ پاکستان کو سب سے پہلے علم اور دانش کی ضرورت ہے،سوچ بدلے گی تو رویہ بدلے گا،رویہ بدل گیا تو قومی فرض اور ذمہ داری کا تصور بھی بدل جائے گا۔